Search Bar

Dost Numa Dushman Teen Auratien Teen Kahaniyan 2023

 



Dost Numa Dushman  Teen Auratien Teen Kahaniyan

ان دنوں جب میں میٹرک میں تھی میری واحد دوست نوشین تھی، ہم دونوں کے گھر ایک ہی محلے میں تھے۔ تبھی اکٹھے اسکول جاتے تھے۔

ہمارے اسکول کے سامنے ہی چند بیرکس بنی ہوئی تھیں جن میں کیڈٹ ٹریننگ لیا کرتے تھے۔ اسکول جاتے ہوئے نوشین اکثر ان بیرکس کی طرف دیکھتی تھی۔ جدھر سے چاق و چوبند خوبرو کیڈٹ کبھی ویسے ہی اور کبھی پریڈ کرتے نظر آتے تھے۔ میرا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے تھا، جبکہ میری یہ سہیلی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ ایک کمرے کے کوارٹر میں ماں باپ اور چھ بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کا والد بیرکس کے خانساماں تھے لہذا ان کو رہائش کھانا اور میڈیکل کی سہولیات حاصل تھیں۔ یوں ان کا گزارہ ٹھیک ہو رہا تھا۔

جب ہم اسکول جا رہے تھے تو کیڈٹ کی پریڈ ختم ہوئی تھی اور کیڈٹ وہاں سے نکل کر اپنے رہائشی یونٹس کی طرف رواں دواں ہو جاتے تھے۔ ان میں گل ریز خان بھی تھا جو نہایت خوبرو لمبا تڑنگا اور سرخ و سفید رنگت والا نوجوان تھا۔ نوشین کے والد کی وجہ سے وہ نوشین کو جانتا تھا۔ کیونکہ گل ریز کا کھانا وہی پکاتے تھے۔ میری سہیلی کو یہ خوبرو کیڈٹ بہت پسند تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ گل ریز سے بات کرے مگر وہ بے نیازی سے ہمارے پاس سے گزر جاتا تھا۔

ایک دن اچانک ہمارے راستے میں آگیا تو نوشین کے کہنے پر میں نے اس کو

سلام کیا۔ اس نے چونک کر میری جانب دیکھا تو میں نے فوراً کہا۔ معاف کیجئے گا، جان پہچان کے لئے یہ بہت ضروری تھا۔ ابھی میں نے اسی قدر کہا تھا کہ ترنت نوشین نے ایک رقعہ آگے بڑھا دیا جو وہ پہلے سے ؟ لکھ کر لائی

تھی۔

اگلے روز اسی وقت پھر وہی جوان ہم کو راستے میں ملا۔ تبھی اس نے رقعہ آگے بڑھایا۔ نوشین نے اس کے ہاتھ سے لینا چاہا مگر اس نے اس کی بجائے پرچہ مجھے تھما دیا اور آگے بڑھ گیا۔ میں نہیں جانتی اس حرکت سے نوشین پر کیا گزری۔ راستے بھر وہ خاموش رہی کلاس میں آتے ہی چیں بہ جبیں ہو اور اس کا رویہ میرے ساتھ انتہائی درشت ہو گیا۔ میں جان گئی کہ نوشین اس لڑکے کو پسند کرتی ہے، چھٹی کے وقت ہم نے یہ رقعہ کھولا تو اس میں درج تھا۔ میں آپ کا نام نہیں جانتا مگر نام جاننے اور دوستی کے لئے، یہ بہت ضروری تھا۔ تبھی رقعہ لکھنا مناسب سمجھا۔ اور ہاں

. میرا نام گل ریز خان ہے۔ ساتھ اس نے اپنا فون نمبر بھی لکھا تھا۔

چھٹی بعد جب ہم دوبارہ اس راستے سے گزرے تو وہ سامنے نظر آگیا۔ میں اس کی جانب سے دیکھے بنا آگے بڑھ گئی تو وہ ہمارے راستے میں آگیا اور کہنے لگا۔ آپ نے جواب نہیں دیا۔ بوکھلاہٹ میں صرف اتنا کہہ پائی کہ فون پر جوا گی۔ اس نے سوال کیا۔ کس وقت ...؟ گھبراہٹ میں اس کو ٹالنے کے لئے کہہ دیا کہ شام کے وقت میں نے یہ کہہ تو دیا مگر نوشین میرے پیچھے پڑ گئی کہ فون کرو۔ جب اس نے بہت مجبور کیا پھر خود ہی نمبر ملا دیا ... اور فون مجھے تھما دیا۔ فون گل ریز خان نے ہی اٹھایا تھا لیکن نوشین کے بغیر مجھ سے ملیے۔ بیرکس کے قریب ہی ایک چلڈرن پارک تھا۔ جہاں ہم روز شام کو ملنے لگے۔ نوشین بھی ساتھ ہوتی اور کبھی میں چھٹی کا بہانہ کر کے کسی اور ٹائم پارک چلی جاتی تاکہ وہ ساتھ نہ ہو۔ یوں ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس کی ٹریننگ ختم ہو گئی۔ گل ریز کا خیال تھا کہ کسی دوسرے شہر پوسٹنگ سے قبل وه رشتے کے لئے میرے والدین سے بات کرے گا۔ ادھر میرے والدین میری شادی کی فکر میں گھلنے لگے۔ کچھ رشتے آئے مگر وہ مناسب نہ تھے، جبکہ گل ریز کا مستقبل روز روشن کی طرح عیاں اور شاندار تھا۔ میرے والدین چاہتے تھے کہ میری جلد از جلد شادی ہو جائے کیونکہ ابو جان ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ ایک روز اچانک ان کو دل کا دورہ پڑا اور انہیں علاج کی غرض سے ایک دوسرے شہر لے جانا پڑا۔ ہم سب اتنی جلدی میں وہاں گئے کہ میں گل ریز کو اطلاع بھی نہ دے سکی۔ ایک ماہ ابو اسپتال رہے اور ان کی مکمل صحت یابی کے بعد ہم لوگ واپس اپنے شہر آگئے۔ آتے ہے ہی میں نے گل ریز کو فون کیا مگر وہ وہاں نہ تھا۔ جس نے فون اٹھایا۔ اس نے بتایا کہ اس کی پوسٹنگ واہ کینٹ ہو گئی ہے۔ میں نے اس کا بہت انتظار کیا مگر نہ اس نے فون کیا اور نہ ہی خط لکھا۔ انہی دنوں نوشین کی شادی ہو گئی اور وہ کھاریاں سے راولپنڈی چلی گئی۔ میں اکیلی رہ گئی۔ اب دل کا حال بھی کس سے کہتی۔ اس کے سوال میری اور کوئی دوست بھی نہ تھی۔ ابو نے میری شادی کرنا چاہی مگر میں نے انکار کر دیا کیونکہ گل ریز کا انتظار تھا۔ یونہی اس کی یادوں میں دو سال گزر گئے۔ تعلیم

مجھے

مکمل کرنے کے بعد میں نے لیکچرر شپ کر لی، بھائی اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ والد صاحب فوت ہوئے تو والدہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکیں اور وہ بھی ایک سال بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ پھر یکے بعد دیگرے بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں اور میری ٹرانسفر مری ہوگئی، جہاں میں ہوسٹل میں رہتی تھی۔

ماه و سال پر لگا کر اُڑتے چلے گئے۔ میں جب بھی بیتے دنوں کو یاد کرتی تو آنسو نکل پڑتے اور میں گزرتے وقت کو مٹھی میں بند کرنے کی کوشش کرتی، مگر لمحے سرسراتی ریت کی طرح زندگی کے روز و شب سے

نکلتے چلے گئے۔ یوں دس بارہ سال اور بیت گئے۔ انہی دنوں ہمارے اسکول نے آرمی کے ایک فنکشن میں شمولیت کی، وہاں اچانک ہی مجھے گل ریز خان نظر آئے۔ اب وہ پہلے جیسے گل ریز خان نہ رہے تھے۔ نہ ہی ان میں لڑکوں جیسا کھلنڈر پن تھا وہ شوخی بھی نہ تھی جو کیڈٹ لوگوں کا خاصہ ہوتی ہے۔ اب وہ ایک سنجیدہ آفیسر تھے اور کنپٹیوں پر سفید بال جهلملا رہے جب ان کی نظر مجھ پر پڑی فوراً ہال سے نکل

پڑے۔ میں بھی ان کے پیچھے گئی اور ان کو راستے میں جا لیا۔ گل ریز خان، تم کہاں چلے گئے تھے۔ میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔ جواب میں پوچھا تمہارا شوہر ٹھیک ہے۔ میں گنگ ہو کر ان کی طرف دیکھتی رہ گئی کہ یہ کیسا سوال میرا شوہر ...؟ ہاں تمہارا شوہر۔ مگر آپ سے کس کہاکہ میری شادی ہو گئی ہے۔کہنے لگے۔ اوه ... مجھے تمہیں پہلے بتا دینا چاہئے تھا کہ نوشین میری محبت میں گرفتار تھی اور اسی نے مجھے کہا

تھا کہ تمہاری شادی ہو گئی ہے اور تم بیاہ کر سوات چلی گئی ہے۔ میں دو ہفتے تک تمہارے گھر کے چکر لگاتا رہا مگر وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ فون کرتا تو فون کوئی نہ اٹھاتا تھا، تبھی میں نے یہ سچ جانا کہ تمہارے گھر والے تمہارے ساتھ گائوں ہیں تمہاری شادی کرانے۔ یہ سن کر میں نے سر تھام لیا اور اس کو بتایا کہ نوشین نے غلط بتایا، ہم لوگ سخت پریشانی میں ابو کے علاج کے سلسلے میں ایک ماہ کے لئے کراچی چلے گئے تھے کیونکہ وہاں میرے تایا ابو ڈاکٹر تھے۔ گل ریز کو یہ سن کر حیرت ہوئی کہ میں نے اس کے انتظار کی آس میں ابھی تک شادی نہیں کی۔ اس نے بتایا کہ شادی تو اس نے بھی نہیں کی، یوں خدا نے ہم کو ملا دیا کیونکہ ہماری محبت سچی تھی۔

آج میں مسز گل ریز ہوں اور اپنے گھر میں بہت خوش ہوں۔ سوچتی ہوں خدا نے مدت بعد ہم کو ملا دیا لیکن نوشین نے کیا خوب میرے ساتھ کیا۔ پیٹھ پیچھے چھرا گھونپ دیا حالانکہ وہ میری گہری سہیلی تھی۔ تقریباً سال پہلے اطلاع ملی کہ نوشین سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر چل بسی ہے۔ میں نے بھی اس کا برا نہیں سوچا تھا اسے بدعا تک نہ دی تھی مگر سچ ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے


Post a Comment

0 Comments