Maa Tu Jaan Say Gae Urdu Story |
ہوش سنبھالا
تو گھر میں عجیب ماحول دیکھا۔ والد صاحب کا رویہ بہت ترش تھا۔ اپنے چھوٹے بھائیوں سے
بھی ان کے تعلقات کشیدہ تھے۔ مجھ کو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا کہ وہ اپنے بوڑھے والد کی
بھی پروانہ کرتے بلکہ ان کی بے عزتی کر دیا کرتے تھے۔ یہی حال امی کا تھا۔ وہ ضعیف
سسر کو جان بوجھ کر تنگ کرتیں۔ تمام دن کھانانہ دیتیں حتی کہ شدید گرمی میں پنکھا بند
کر دیا کر تھیں۔ وہ ناتوانی کے سبب بار بار اٹھ کر پنکھانہ چلا پاتے ،تب میں ٹیبل پر
چڑھ کر فین کا سونچ آن کر دیتی تھی۔
ایک دفعہ امی
نے کئی دنوں کے رکھے گندے گلاس میں پانی بھر کر دادا کو دے دیا، گلاس شربت والا تھا،
اس میں چیونٹیاں پیندے میں لگی تھیں۔ دادا نے پانی پیا و چیونٹیاں ان کے گلے میں لگیں۔
تب وہ تکلیف سے کراہنے لگے۔ میری ماں دو پچے کا پلو منہ پر رکھ کر خوب نہیں۔ میں حالانکہ
سات برس کی بچی تھی، پھر بھی مجھ کو ماں کی اس حرکت
پر غصہ آیا اور
دکھ سے آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ ایک ضعیف انسان سے کیسا انسانیت سوز سلوک کیا تھا۔
ناتواں مجبور تھی، ان کو کچھ نہ کہہ سکتی تھی۔ ستم یہ کہ میری والدہ اپنی اس حرکت پر
شر مندہ ہونے کی بجائے بہت فخر کے ساتھ اپنی سہیلیوں سے اس بات کا چر چا کیا کرتی تھیں۔
اور پھر یہ بات کرتے ان کی ہنسی چھوٹ جاتی جیسے وہ کوئی لطیفہ سنارہی ہوں۔ والد صاحب
کوئی کام نہ کرتے تھے۔ چا کما کر ان کو تنخواہ دے دیتے اور وہ بڑے بھائی کی حیثیت سے
گھر چلاتے۔ والد کے لکھے پن اور مفت کے رعب جمانے سے تنگ آکر میرے دونوں چا الگ ہو
گئے۔ یوں میرے والد تنہا رہ گئے۔ تب ماں کو بھی تنگ دستی نے گھیرا۔ بولیں۔ تم نے جو
بھائیوں کی کمائی پر بڑی دھونس سے گھر میں اپنی چودھراہٹ قائم کئے رکھی تواب دیکھ لو
نتیجہ گھر میں دال روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ اب خود کمائو یا کہیں سے چوری کر کے لائو
مگر ہمارا پیٹ تو کھانے کو مانگتا ہے نا... بولواب کیا کریں گے ؟ والد صاحب کار و یہ
میرے ساتھ شروع سے عجیب سا تھا۔ انہوں نے کبھی بھی اپنی زبان سے بیٹی نہیں پکارا۔ محبت
اور شفقت تو دور کی بات ہمیشہ بیزاری سے دیکھتے تھے۔ جیسے ان کو گھر میں میر اوجود
گوارہ نہ تھا۔ دادا، چھائوں سے ضرور مجھے پیار ملا، ننھیال والے تو مجھ پر جان نچھاور
کرتے تھے ، مگر والد کی بے رخی میرے معصوم دل کو ٹھیس پہنچاتی تھی۔ پیار کی تلاش میں
ننھیال کے دامن میں جا چھپی مگر پھر یوں ہوا کہ نھیال میں ایک روز ناگہانی ہو گئی۔
موت نے وہاں تباہی مچادی۔ میرا اکلوتا ماموں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی موٹر سائیکل
کے حادثے میں موت کی آغوش میں چلا گیا۔ نانا اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور وہ بھی
بیٹے کے پیچھے شہر خموشاں میں جابسے۔ وہ دولڑکیوں اور بیوہ کو دنیا کے بے رحم تھپیڑوں
کے حوالے کر گئے۔ ناناوراثت میں کافی زمین چھوڑ گئے تھے ، جو بیٹیوں اور بیوہ کی گزر
بسر کو کافی تھی۔ میری نانی سیدھی سادی پرانی وضع کی عورت تھیں لیکن ان کے بر عکس امی
کافی ہو شیار اور چالاک تھیں، جب انہوں نے اپنی ماں اور دونوں چھوٹی بہنوں کو ابتلا
کی گھڑیوں میں گھر اہوا دیکھا، بھاگم بھاگ میکے پہنچیں اور ماں بہنوں کی اشک شوئی میں
لگ گئیں۔ والد صاحب بھی ان کے ساتھ شریک ہمدردی ہو گئے۔ دراصل یہ دونوں مالی حالات
کی وجہ سے ان دنوں اشد پریشان و بدحال ہو رہے تھے۔
اب نانا کی وراثت
پر ان کی آئندہ زندگی کا دار ومدار تھا اور انہوں نے میری نانی اور خالائوں کی زمین
ہتھیانے کا پروگرام بنالیا تھا تا کہ ان کی اپنی گزر بسر کی مستقل سبیل نکلے۔ نانی
کو مشورہ دیا کہ ہونی ہو چکی ہے اب نہ تو تمہارا سہاگ رہا ہے اور نہ بیٹا۔ لڑکیاں تمہاری
دونوں نا سمجھ ہیں، سو وہ تمہارا دست و باز و کب بن سکتی ہیں ؟ الٹالا چی لوگ تم کو
گھیر لیں گے۔ بہتر ہے کہ زمین کا انتقال کر والو۔
نائی بچاری ان مسئلوں کو کیا جانتی تھیں۔ کہا۔ بیٹا اب تم ہی کچھ رہنمائی کرو۔ ہم عور تیں کہاں خوار ہوتی پھریں گی۔ کچھ دنوں بعد میری بھولی بھالی نانی کو امی ابو نے بتایا کہ ان کو زمین کے انتقال کے سلسلے میں ایک تحصیل دار کے سامنے پیش ہونا ہے۔ یہ دھو کا تھا کیو نکہ وراثت کا انتقال پہلے ہو چکا تھا تا ہم ایک دن امی ابو، نانی کو کچہری لے گئے۔ وہاں عرضی نویس کے پاس بیع نامہ پر ان سے انگوٹھا لگوالیا، جب برائے تصدیق رجسٹری بیع نامہ تحصیلدار کے روبرو پیش ہوا، نانی اماں پر حقیقت کھلی کہ بیٹی اور داماد نے تو زمین فروخت کا سواد کر لیا ہے۔ انہوں نے واویلا کر دیا لیکن میری والدہ نے وہاں سب کو بتایا کہ ان کا ذہنی توازن درست نہیں ہے اور میں ان کو اور اپنی بہنوں کو سنبھالتی ہوں۔ان کے سر پرست اب میں اور میرے شوہر ہیں اور چھوٹی بہنوں کی شادی کے لئے روپیہ درکار ہے۔ اس پر بھی کچھ لوگوں نے نانی کا ساتھ دینا چاہا لیکن والد کے ایک وکیل دوست نے دامے درمے سخنے ان کی پاسداری کا بیڑا اٹھالیا اور ناممکن کو ممکن اور سہل بنادیا۔ یوں میری ماں کی اپنی سگی ماں اور سگی بہنوں کے خلاف سازش پایہ تکمیل کو پہنچ گئی اور میرے ماں باپ کو زمین کی فروخت سے ایک معقول رقم ہاتھ آگئی۔ اراضی فروخت ہوئی تو میری نانی مارے غم کے نیم جان ہو گئیں۔ ان کو اتناذ ہنی صدمہ ہوا کہ چپ لگ گئی۔ میرے والدین نے تھوڑے دن نانی اور ان کی بیٹیوں کی کفالت کی ، پھر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔
نانی کا
ذہنی توازن خراب نہ بھی تھا تو اپنوں نے ان سے حالات کے مقابلے کی سکت چھین لی اور
پھر ان کی گزر بسر ہم سایوں کی خیرات پر ہونے لگی۔ اب مجھے اپنے بوڑھے دادا کے ساتھ
ساتھ پیاری نانی اور منجھلی خالہ کی بھی بہت فکر تھی کیونکہ وہ مجھ سے اور میں ان سے
بہت پیارے کرتے تھے۔ میں ان کی اداسی میں کھلی جاتی تھیں۔ کہتے ہیں مشکل وقت میں کوئی
ساتھ نہیں دیتا لیکن کبھی کبھی معاملہ برعکس بھی ہو جاتا ہے۔ نانی کے خاندان کا ایک
خوبصورت نوجوان محی الدین جو صو بیدار تھا۔ ان کو نانی اور خالائوں کے حالات کا عمل
ہوا تو اس نے اپنی والدہ کو کہا کہ ہم چل کر اس مصیبت زدہ گھرانے کا حال معلوم کرتے
ہیں۔ ان لوگوں نے آکر نانی اور ان کی بیٹیوں کو دیکھا تو آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ محی
الدین کی ماں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ میں اپنی ماموں زاد بہن اور ان کی بچیوں کو
سہار ا دوں گی۔ انہوں نے نانی سے ان کی منجھلی بیٹی خالہ تانیہ کارشتہ مانگ لیا اور
وعدہ کیا کہ وہ ان کی چھوٹی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے میں بھی مدد کریں گی۔ انہوں نے
یوں محی الدین سے خالہ تانیہ کی اور اس کے چچازاد بھائی کمال سے نازیہ خالہ کی شادی
کرادی۔ ہماری نانی اور دونوں خالائوں کو سہار املا اور ان کے گھر بھی آباد ہو گئے۔
جن لوگوں نے
میرے نانا کی اراضی خریدی تھی ، وہ اسی گائوں کے رہنے والے تھے جو میرے والد سے ملی
بھگت رکھتے تھے۔ یہ بڑے فراڈ قسم کے لوگ تھے۔ خالو محی الدین کے کزن کمال صاحب جن کی
شادی چھوٹی خالہ سے ہوئی تھی ان کے بڑے بھائی قابل وکیل تھے۔ انہوں نے محی الدین خالو
کو بتایا کہ تمہاری بیوی اور سالی کی زمین واگزار ہو سکتی ہے کیونکہ قانوناگہاں اپنی
اولاد کی جائیداد فروخت نہیں کر سکتی۔ محی الدین خالو مقدمہ بازی نہ چاہتے تھے لیکن
خالو کمال کے اصرار پر وہ بالآخر رضامند ہو گئے۔ کیس ڈالا گیا اور اس طرح چھ برس کی
مقدمہ بازی کے بعد دونوں خالائوں کے حصے کی زمین واگزار کرائی گئی۔
اب میں لڑکپن کی حدود سے نکل چکی تھی لہذا والدین کو میری شادی کی فکر ہوئی۔ ایک دن میں اسکول سے گھر آئی تو دیکھا کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ ماں نے کہا کہ منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدل لو اور مہمانوں کے لئے چائے بنائو۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ یہ لوگ اپنے ساتھ مٹھائی لائے تھے۔ انہوں نے امی کو نی جوڑا دیا اور مجھے سرخ دوپٹہ پہنا دیا۔ پتا چلا میری منگنی کی رسم ہو رہی ہے۔ میں حیران و پریشان، کچھ بھی تو سمجھ نہ پارہی تھی۔ مہمان تو رسم منگنی کر کے چلے گئے۔ میں سکتے میں بیٹھی رہ گئی۔ میر اذ ہن شادی کے لئے تیار نہ تھا کیونکہ میں توا بھی پندرہ، سولہ برس کی تھی۔ میٹرک کے سالانہ امتحان نزدیک تھے۔ پڑھائی کا بھی ذہن پر دبائو تھا۔ والدہ نے مجھے گم صم اور پریشان دیکھا تو کہار ابعہ تو پریشان مت ہو۔ ہم تیری ابھی شادی تھوڑا ہی کر رہے ہیں۔ تو بے فکر ہو کر میٹرک کے پرچے دے لے پھر سوچیں گے۔ میں نے کہا، مگر میں تو کالج میں پڑھنے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ کہنے لگیں، تو پڑھ لینا کالج ۔ جب تو بی اے کر لے گی تو ہی تیری شادی کریں گے۔ کچھ ڈھارس ہوئی اور میں نے پُر سکون ہو کر پرچے دیئے۔ میٹرک کا رزلٹ آتے ہی وہ لوگ دوبارہ آگئے اور شادی کا تقاضا کرنے لگے۔ ماں نے ان کو ٹال دیا اور مجھ سے کہا کہ بیٹی تم کو آج ایک راز سے آگاہ کرنا چاہتی ہوں۔ میں تمہارے والد کے سامنے بے بس ہوں کیونکہ میرے تین بچے ہیں جو تیرے اس والد سے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ میری دوسری شادی ہے اور قدیر تیرے سوتیلے باپ ہیں۔اب تیری خاطر میں اپنا گھر نہیں اجاڑ سکتی کیونکہ انہوں نے تیر ارشتہ اپنے دوست کے بیٹے سے کیا ہے اور یہ رشتہ ظاہر ہے کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔ اگر تو کالج پڑھنا چاہتی ہے تو ایک معاہدے پر دستخط کر دے کہ چار سال کی مہلت ہو گی اور اس کے بعد ہم تیری رخصتی کر دیں گے۔
ہم یہ کاغذدولہا کے والدین کو دے دیں
گے تو وہ چار سیال کے بعد تیری رخصتی لینے آئیں گے ، تب تک تو آرام سے کالج کی تعلیم
مکمل کرلے گی۔ میں تو د گنے صدمے میں تھی۔ پہلی بارماں نے انکشاف کیا تھا کہ میرے والد
میرے حقیقی باپ نہیں ہیں۔ اس سے پہلے کبھی کسی نے یہ بات نہ بتائی تھی۔ سولہ برس کی
بچی خاصی سیانی ہوتی ہے۔ اب میں بچی نہ تھی۔ یہ انکشاف گویا کہ میرے دل میں شگاف کر
گیا۔ اپنے کمرے میں جا کر خوب روئی، گویا آنکھوں سے دریا بہ گیا۔ والدہ نےآکر گلے لگایا،
سمجھایا کہ بیٹی تیرے والد وفات پاگئے تو میں مجبور تھی۔ تیرے نانا کی آگے تین بیٹیاں
اور تھیں۔ وہ میرا اور تیرا بوجھ عمر بھر کیونکر اٹھاتے۔ یہ سب تقدیر کے کھیل ہیں۔
اس میں میرا اور تیرا کوئی دوش نہیں ہے۔ بہر حال میں نے امی کے کہنے پر دستخط کرنے
کی ہامی بھر لی۔ اگلے دن والد صاحب نکاح نامہ لے لائے۔ میں نے ابھی تک لڑکے کو نہ دیکھا
تھا۔ اس پر بھی انہوں نے مجھ سے دستخط کرالیے۔ مجھے تو کالج جانے کی دھن تھی، سو اور
کچھ نہ سوچا، بس یہی ذہن میں تھا کہ چار سال اور مل جائیں تا کہ میری تعلیم مکمل ہو
جائے۔ جان چکی تھی باپ سوتیلا ہے۔ اگر ان کی رضا پر نہ چلی تو گھر بٹھائیں گے۔ جلدی
شادی کر دی تو تعلیم کے دروازے مجھ پر بند ہو جائیں گے۔
نانی اور خالو
محی الدین گرچہ امی ابو سے سخت ناراض تھے۔ دونوں طرف سے ہی ناراضگی چل رہی تھی۔ لیکن
خالہ تانیہ نے اپنے شوہر اور نانی کو مجبور کیا کہ یہ رابعہ کی زندگی کا سوال ہے۔ وہ
ناراضگی کو پس پشت ڈال کر امی کے پاس آئے اور کہا کہ یہ تم نے کیا کیا ہے ؟ جن لوگوں
نے ہم سے فراڈ کیا اور جعلی کاغذات پر ہماری زمین ہتھیالی، ہم نے اتنے برس مقدمے کی
خواری بھگتی ، اب تم ان لوگوں کو بیٹی کارشتہ دے بیٹھی ہو ۔ جانتی بھی ہو کہ لڑکا کیسا
ہے ؟ کیا تم نے حاصل کو دیکھا بھی ہے۔ اس کا آدھا دھڑ فالج زدہ ہے، وہ شادی کے قابل
نہیں ہے۔ یہ لوگ تو صرف اپنے لڑکے کی اس وجہ سے شادی کر رہے ہیں کہ ایک فالج زدہ کو
دیکھ بھال کے لئے نرس چاہئے۔ سو وہ تمہاری معصوم بچی کو بیاہ لے رہے ہیں۔ تمہارے شوہر
نے تمہاری لڑکی کو قربانی کا بکر ابنایا ہے کیونکہ اس طرح ان لوگوں سے اس کو مالی فائدہ
ہونے کی امید ہے۔ انہوں نے ہماری بھی پوری زمین واپس نہیں کی جبکہ تمہارا حصہ تو تمہارا
شوہر ان سے اونے پونے بیچ کر دام کھرے کر چکا ہے۔ ذرا ہوش کے ناخن لو۔ اگر رابعہ تم
پر بھاری ہے تو ہمارے سپر د کر دو۔ غرض نانی اور خالہ میری خاطر بہت جھگڑیں۔ میں نے
حالات سنے تو دل میں فیصلہ کر لیا کہ ہر گز قربانی کا بکرا نہ بنوں گی۔ اب تو ماں بھی
پریشان تھیں کہ مجھ سے
نکاح نامے پر دستخط کراچکی تھیں اور شوہر سے ٹکر لینے کا بھی یارانہ تھا، میکے سے بھی بگاڑ چکی تھیں۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے۔ سوچ بچار کے بعد کہا کہ ٹھیک ہے تانیہ، تم رابعہ کو رکھ لینا میں کوئی موقع تلاش کرلوں۔ ابھی تو بے بس ہوں۔ یوں میری وجہ سے نانی اور خالہ سے امی کی صلح ہو گئی اور خالو محی الدین نے بھی وعدہ کیا کہ اس معاملے میں وہ میری ماں کا ساتھ دیں گے۔ کالج میں داخلے شروع ہو گئے۔ میں نے اصرار کیا کہ داخلہ کرادیں۔ والد نے گھر کی دی۔ سمجھ گئی کہ یہ مجھ کو نہ پڑھائیں گے ۔ ماں نے ان کو الگ سے سمجھایا کہ لڑکی ابھی کم عمر ہے۔ دو سال اس کو پڑھنے دو، اٹھارہ کی ہو جائے تو رخصتی کر دیں گے ۔ لڑکے والے تقاضے کر رہے ہیں ان کو کیا کہوں؟ ان کو سمجھائو۔ وہ نہیں سمجھتے۔ اچھا لڑکا تولے آئو، میں اسے دیکھوں تو سہی۔ ماں نے کہا تو ابو بولے۔ میں نے دیکھ لیا ہے۔ تم دیکھ کر کیا کروں گی۔ کیا مجھ پر اعتبار نہیں ہے ، جب شادی کی تاریخ لینے آئیں گے دیکھ لینا۔ انہوں نے ماں کو بھی نہ بتایا کہ حاصل فالج زدہ ہے۔ ماں نے صبر کا گھونٹ بھر لیا۔ مجھ کو سمجھایا کہ تیری عافیت اسی میں ہے۔ صبر کر۔ فی الحال کالج جانے کی ضد نہ کر ورنہ تیرا باپ زبر دستی تجھ کو آج کل میں رخصت کر دے گا۔ نکاح نامے پر تم سے دستخط لے چکا ہے۔اب ہمارے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔ میں کوئی دوسرا راستہ نکالتی ہوں تجھے تیری نانی کے حوالے کرنے کا۔ میں نے ماں کی مجبوری سمجھ کر چپ سادھ لی۔ ماں نے خالو محی الدین کو بلا کر سمجھا دیا کہ شوہر کو کہوں گی کہ جو زمین آپ لوگوں نے میری دونوں بہنوں اور امی کی واگزار کروائی ہے، اس میں سے امی اپنے حصے کی زمین رابعہ کے نام کرنا چاہتی ہیں، آپ سے بات ہو تو ایسا ہی کہنا۔ قدیر ایک لالچی آدمی ہے ، وہ اس بات کو سن کر صلح کرلے گا۔ ایسا ہی ہوا، والد کی موجودگی میں نانی اور خالہ آئیں۔ کہا کہ جو ہوا بھول جائو۔
ہم کو زمین سے پورا حق نہیں ملا، پھر بھی ہم نے قبول کیا اور رابعہ کی خاطر
آپ لوگوں سے راضی نامہ کر لیا کیونکہ میری نواسی مجھے اور میری بیٹیوں کو بہت عزیز
ہے۔ ہم ہمیشہ کے لیے آپ لوگوں سے رشتہ ختم نہیں کرنا چاہتے۔ میں اپنے حصے کی زمین رابعہ
کو لکھ دیتی ہوں بشر طیکہ اس پر ہم سے ملنے پر پابندی نہ لگائیں۔ نانی کے منہ سے یہ
کلمات سن کر لالچی داماد کے منہ سے رال ٹپک پڑی۔ کہا کہ ٹھیک ہے۔ میں رابعہ پر کوئی
پابندی نہیں لگائوں گا۔ آپ لوگ ہمارے گھر جب چاہے آکر رابعہ سے مل سکتی ہیں۔ اس طرح
نانی و خالہ تانیہ کا ہمارے گھر آنا جانا شروع ہوا۔ نانی اس دوران بیمار ہو گئیں تو
ماں نے کہا کہ کچھ دن رابعہ نانی کے گھر رہنا چاہتی ہے۔ والد نے اجازت دے دی لیکن بولے،
ماں سے کہو کہ حسب وعدہ اپنے حصے کی زمین جلد از جلد لکھ کر دے دے۔ زندگی کا بھروسہ
نہیں، وہ عمر رسیدہ ہے۔ یہ معاملہ جتنی جلد حل ہو جائے ، اچھا ہے۔ والدہ بولیں ٹھیک
ہے۔ میں بات کرتی ہوں، یوں ابو سے اجازت لے کر ماں نے مجھے خالہ تانیہ کے گھر پہنچادیا
کیونکہ نانی
اب ان ہی کے
ساتھ رہتی ہیں۔ خالو محی الدین مجھے خالہ تانیہ سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے۔ ہر چیز
لا کر دیتے تھے ، میں نانی اور خالہ کے پاس بہت خوش تھی۔ میں دوماہ ان کے گھر رہی۔
لگتا تھا یہی میرے اصل ماں باپ ہیں۔ اب تو ماں کے گھر جانے کو بھی جی نہ
کرتا تھا۔
نانی صحت یاب ہو گئیں، تب ایک روزامی آئیں، کہا کہ رابعہ کو واپس لینے آئی ہوں۔ بیمار رہتی ہوں۔ قدیر کہتے ہیں کہ بہت دن رولی ہے ، اب اس کو لے آئو ، ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ باپ کے گھر میں جگہ نہیں ہے جو بیٹی خالو کے در پر پڑی ہوئی ہے۔ نانی نے امی کے اصرار پر مجھے ان کے ساتھ بھیج دیا۔ گھر آکر والدہ نے مجھے بتایا کہ بیٹی تمہارا باپ تمہاری شادی کر رہا ہے اور میں مجبور ہوں۔ اگر میں نے اس کا ساتھ نہ دیا تو وہ مجھے طلاق دے دے گا۔ تم اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی خاطر قربانی دے دو۔ اگر تم نہ مانیں تو میری اس گھر میں کوئی جگہ نہیں، پھر میں اور میرے تین بچے کہاں جائیں گے ؟ قدیر نے بچے چھین لئے تو میرا کیا بنے گا؟ ماں کے رونے دھونے پر میں خاموش ہو گئی مگر دل میں ٹھان لی کہ ہر گز قربانی کا بکرانہ بنوں گی۔ جن لوگوں نے میری نانی کی زمین ہتھیا لی۔ ان کے فالج زدہ بیٹے کی ہر گز دلہن نہ بنوں گی۔ میں نے خالہ کو کسی طور پیغام بھجوایا خالہ اور نانی گھر آئیں۔ نانی نے کہا کہ میں اپنے حصے کی جائیداد واقعی رابعہ کو لکھ دیتی ہوں مگر شوہر کورو کو کہ وہ اس فالج زدہ شخص سے بیٹی کی قسمت نہ پھوڑے۔ محض چند ایکٹر زمین کی خاطر ایک معذور اور عمر میں کہیں بڑے بیمار آدمی سے ہماری لڑ کی کار شتہ کر رہا ہے۔ یہ ظلم ہے۔ امی نے کہا۔ ماں میں اسے نہیں روک سکتی، وہ نہ مانے گا۔ مجھے سزا دے گا۔ طلاق تو ملے گی ہی تینوں بچے بھی چھین لے گا جو بھی چھوٹے ہیں۔ ان کو میری ضرورت ہے۔ میں ان کی جدائی نہ سہہ سکوں گی۔ خالہ، خالو اور نانی افسردہ لوٹ گئے، مگر میں نے خط لکھ کر خالہ کی مٹھی میں دے دیا کہ میں خود آپ کے پاس آجائوں گی۔ امی کو اس معاملے میں نہ حسیٹیں ، وہ مجبور ہیں۔
عدالت میں ابا کے خلاف بیان دوں گی۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ جب ابا نے میری رخصتی کی تیاری کرلی تو شادی والے دن میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا کہ دلہن والا لباس پہن لوں۔ اور پھر کمرے کی پچھلی کھڑکی سے اپنی ملازمہ کا ٹوپی والا برقع اوڑھ کر گھر سے نکل گئی۔ ہماری ملازمہ اماں حیاتاں کی بیٹی سلمیٰ میرے ساتھ مل گئی تھی، اس نے خالہ تانیہ کو فون کر دیا۔ خالہ اور خالو اس جگہ آگئے جہاں سلمیٰ نے کہا تھا۔ سلمیٰ کا گھر ہمارے گھر کے پچھواڑے تھا اور خالہ کو اس گھر کا پتا معلوم تھا۔ میں وہاں بیٹی تھی، وہ آدھ گھنٹے کے اندر اندر خالو کے ساتھ وہاں پہنچیں اور مجھے لے گئیں۔ یوں میں تو قربانی کا بکر ابنے سے بچ گئی، مگر میری بے چاری ماں بے قصور ماری گئی۔ میرے کمرے کا جب درنہ کھلا تو کمرے کی پچھلی کھڑ کی کی جانب آئے۔ وہ کھلی ہوئی تھی اور اندر میں موجود نہ تھی۔ دلہن والد جوڑا جو میں نے پہنا تھاوہاں ویسے ہی بیڈ پر دھراتھا اور میں غائب تھی۔ سلمی اور اس کی ماں پر کسی کا شک نہ گیا۔ وہ شادی والے گھر میں موجود تھیں۔ والد نے سوچا بھی نہیں کہ ان لوگوں نے مجھے بھگایا ہو گا۔ شادی والے گھر میں افرا تفری مچ گئی۔ بارات آنے والی تھی۔ ابا نے فون کر کے ان لوگوں کو صورت حال سے آگاہ کیا کہ مت آئیے۔ میری لڑکی اس شادی پر راضی نہ تھی۔ وہ گھر سے غائب ہو گئی ہے۔ اس کو ڈھونڈلوں۔ آپ اپنے مہمانوں سے کوئی بہانہ کر دیجیے۔ فی الحال دلہن آپ کو نہیں مل سکتی۔ خدا جانے انہوں نے بارات میں آئے مہمانوں سے کیا بہانہ کیا۔
بہر
حال شادی ملتوی ہو گئی۔ ادھر اپنے گھر آئے مہمانوں سے ابا نے کہا کہ دولہا کا دادا
فوت ہو گیا ہے ، لہذا شادی ملتوی کر دی ہے۔ لیکن ان کا بہانہ نہ چلا کیونکہ سب جان
گئے تھے کہ رابعہ غائب ہے۔ ابا کے منہ پر خاک پڑ چکی تھی۔ مہمان چلے گئے تو والد نے
میری ماں کے بال پکڑ لیے۔ کہا کہ تو بیٹی کے ساتھ شامل تھی اور تو نے ہی اس کو بھگایا
ہے۔ اب میں اس کے پیچھے نہیں جائوں گا۔ یاتو بیٹی کو ابھی ابھی حاضر کرو۔ نہیں تو تم
کو زندہ نہ چھوڑوں گا۔ ماں نے خالہ کو فون کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا اس واقعے سے
کوئی تعلق نہیں ہے۔ تمہاری لڑکی نے جو کیا ہے اپنی مرضی سے کیا ہے۔ رابعہ ہمارے پاس
نہیں ہے۔ اپنے شوہر کو کہہ دوا گر آ بھی گئی تو واپس نہ کریں گے بلکہ اس کو عدالت لے
جائیں گے پھر جو فیصلہ عدالت کرے گی ، دیکھا جائے گا۔
والد نے خود
فون کرایا تھا اور انہوں نے خالہ کا جواب بھی اپنے کانوں سے سن لیا۔ تب طیش میں آکر
امی کے سر پر گندم کو ٹنے والا ڈنڈا مار دیا۔ میری ماں اس بھاری ڈنڈے کی چوٹ نہ سہہ
سکی، ایک ہی وار میں ختم ہو گئی۔ مجھے کو تو قربانی کا بکر ابننے سے نجات مل گئی مگر
میری بیچاری ماں کو سخت سزا ملی اور ان کو اس سفاک آدمی نے غصے پر قابونہ رکھتے ہوئے
زندگی سے ہی محروم کر دیا۔ ابا کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ انہوں نے وہاں یہ بیان دیا
کہ میری بیوی اس رشتے پر خفا تھی۔ اس نے بیٹی کو عین شادی کے دن گھر سے بھگادیا اور
میری بھری برادری میں بے عزتی کرائی۔ میں اس بے عزتی کو برداشت نہ کر سکا اور طیش میں
آکر اس کے سر پر گندم کو ٹنے والا ڈنڈا مار دیا، چونکہ اس وقت یہ ڈنڈا سامنے پڑا ہوا
تھا۔ والد کو سزا ہوگی ہاں جان سے گئی۔ بے شک میں فالج کے مریض کی دلہن بنے سے بچ گئی
مگر زندگی بھرماں کے دکھ
کو نہ بھلا سکی
کہ میری خاطر جس کی جان گئی تھی۔
0 Comments